حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ڈاکٹر کلب صادق نقوی ایک کو دوسرے سے ملانے والے رابط کی حیثیت رکھتے تھے۔ بہت سے ایسے لوگ جو کبھی مجلس میں نہیں گئے ان کی الفت اور محبت میں مجلس میں آئے۔ ڈاکٹر صادق سے ان کے رشتے اور تعلقات انہیں اس مجلس میں کھینچ کر لائے ہیں۔رشتے ڈاکٹر صادق پر ختم ہوجائیں توکامیابی نہیں بلکہ یہ خدا، حق، صداقت ، ایمان اور توحید تک پہنچیں تو کامیابی ہے۔ ڈاکٹر کلب صادق اپنے نام اور کام سے دنیاکیلئے وجودو رابط بنے ہوئے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا عقیل الغروی نے مولانا ڈاکٹر کلب صادق طاب ثرا ہ کے ایصال ثواب کیلئے منعقد مجلس چہلم کو خطاب کرتے ہوئےکیا۔ چوک منڈی واقع امام باڑہ غفران مآب میں منعقد مجلس میں مولانا نے کہاکہ ڈاکٹرصادق زندگی بھر ہدایت دیتے رہے۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر صادق کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایک بہترین انسان تھے۔
انسان کہتے کسے ہیں ، کیونکہ سائنس توہمیں حیوان سمجھتی ہے۔ اگر اپنی انسانی اہمیت سمجھنا ہے توقرآن میں پڑھیں اور دیکھیں۔ قرآن میں شریعت کا علم سیکھنے سے ۱۰۰ گنا زیادہ سائنس پر زوردیا ہے۔ انسان وہ مخلوق ہے جس میں اللہ کی صفت پیداکرلینے کی صلاحیت رکھی گئی ہے۔اگرہرانسان سوچ لے کہ میں انسان ہوں اور مجھ میں خداکی صفت آنا چاہئے توہرسانس میں بھلائی ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹرکلب صادق کی شخصیت کوسمجھنے کیلئے تبلیغ یا خضرہدایت کو یاد رکھیں۔
اس سے قبل مجلس کاآغاز انہوں نے ایک شعر سے کرتے ہوئے کہا’مجلس عزاکیا ہے ایک نماز الفت ہے-یا علی اذاں اپنی یا حسین اقامت ہے‘۔انہوں نے کہاکہ مجلس عزا دعائے بلندی درجات ہے اور دعا عظیم حقیقت ہے۔ دعاکسی بھی شکل میں کی جائے بدعت نہیں ہوگی دعا دعاہوتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر صادق ایک ذاکر ، ایک خطیب، ایک اسکالراور فقیہ تھے۔ ان کی شخصیت گنگا جمنا کی نہیں بلکہ گنگا اور فرأت کا سنگم تھی۔ گنگااورجمنا اسی ملک میں ہیں اور فرات دوسرے ملک میں ہے۔ بین الاقوامی سطح پر دیکھیں توان کی شخصیت گنگا اور فرات کا سنگم ہے۔
مولانانے کہاکہ ڈاکٹر صادق طاب ثراہ اردو، عرفی اور فارسی کے ادیب تھے جس کی مثال ایران میں بادشاہت کےخاتمہ پر ان کی تحریر کردہ کتاب ’تاج شکن ‘ہے۔ انہوں نےکہاکہ مولانا کو حکیم الامت اس لئے کہاجاتاہے کہ کیونکہ حکیم اور مدبروہ ہوتاہے جو بڑے طوفانوں کو چھوٹی سی تدبیر سے پلٹ دے۔ اب دانشور یہ سوچیں کہ قوم کو کیسے بلندیوںپر پہنچانا ہے۔ ایک سچے دانشور کی پہچان اس کی دلسوزی اورسماج کے تئیں اس کی فکر ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمان وہ ہے جسے حق کی پہچان ہواور شیعہ وہ ہے جو ان رہنماؤں سے وابستہ رہے جو حق کو پہچانتے تھے اور حق پر سجدہ ریز رہے۔ انہوںنے ڈاکٹر صادق کی نماز جنازہ کے سلسلہ میں پیداہوئے تنازعہ پر صحیح بخاری کی حدیث نمبر ۶۰۴۵ کاذکرکرتے ہوئےکہا کہ کسی پر کافر کا الزام نہ تھوپونہیں توتم خودکافرہوجائوگے ۔مولانا نے ڈاکٹرصادق کے نام کی تشریح کرتے ہوئےکہاکہ صادق اسے کہتے ہیں جس میں سچ کوٹ کوٹ کر بھراگیاہے۔ معجزات رسولؐ، انبیاراوراولیاء کاایک رازیہ بھی ہے کہ وہ اتنے سچے تھے کہ جو کہتے تھے وہ ہوجاتاتھا۔یہی وجہ تھی کہ جب دخترسول نےکہاکہ عید کیلئے حسنین کے کپڑے درزی کےیہاں گئے ہیںتواللہ نے جنت سے لباس پہنچوادئے۔
مولانا عقیل الغروی نے کہاکہ ڈاکٹر صادق نے چیریٹی کے بہت کام کئے۔ چیریٹی کا مطلب کسی کو پیسہ دینا ہی نہیں بلکہ کسی کو صحیح مشورہ دینا، اس کے درد کومحسوس کرنااور دوسرے کی ضرورت پوری کرنا، دوسرے کی ضرورت کو خود سے زیادہ سمجھنا بھی چیریٹی ہے۔ انہوں نے امام حسین کا جناب حُرکے پیاسے لشکر کو پانی پلانے کامنظر بیان کرتے ہوئےکہاکہ یہ چیریٹی کا درس ہمیں یہیں سے ملتاہے۔ مولانا نے امام حسین کی شہادت کامنظربیان کیا تو عقیدت مند کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں ۔
اس سے قبل ڈاکٹرصادق کی قبرکے پاس تلاوت کلام پاک کی گئی اس کے بعد ڈاکٹراصغر اعجاز، شاہدعباس لکھنوی، کاظم جرولی، منور رانا، ڈاکٹرانیش اشفاق، پروفیسرکمال الدین اکبر، جگدیش گاندھی ، سینئر صحافی کمال خان نے ڈاکٹر صادق سے وابستہ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انہیں جذباتی خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کے علاوہ ویڈیو پیغامات کے ذریعہ علما، دونشوران و دیگر معزز شخصیات نے بھی خراج عقیدت پیش کیا۔
یونٹی کالج کے طلبانے ڈاکٹر صادق طاب ثراہ کی اہلیہ کی تحریر کردہ نظم اور ترانہ پیش کیا۔ اسی طرح سی ایم ایس کے طالب علم نے بھی اپنی ایک نظم کے ذریعہ ڈاکٹر کلب صادق کو خراج عقیدت پیش کیا۔ مجلس میں کثیر تعدادمیں علماء، خطباء، ڈاکٹر، دانشور، سماجی کارکنان، مختلف تنظیموںاور اداروں سے وابستہ نمائندوں او ر خواتین و مرد نے حصہ لیا۔